[vc_row][vc_column][vc_column_text]
6-5-2017
خواتین سے متعلق جرائم پر تجزیاتی رپورٹ
دنیا بھر میں جرائم کے خاتمے کے لئے دو طرح کے نظریات رائج ہیں جن میں سے ای نظریہ انسدادی اور دوسری اصلاحی طرز کاہے۔ اول الذکر نظریے کے حامی افراد کا ماننا ہے کہ معاشرے سے جرائم کا خاتمہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب مجرموں کو سخت سے سخت ترین سزا دی جائے اور انھیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ مزید افراد جرائم کے ارتکاب سے باز رہیں جبکہ اخیرالذکر نظریے کے حامی افراد کا ماننا ہے کہ جرائم کا خاتمہ لوگوں کی اصلاح سے مشروط ہے اور جب تک معاشرے میں بسنے والے افراد ازخود جرم سے نفرت نہ کریں اس وقت تک جرائم کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے۔
دنیا کے بعض ممالک انسدادی نظریے کو اپنائے ہوئے ہیں اور بعض اصلاحی نظریے کو جبکہ بعض ممالک میں دونوں نظریات کا ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے۔ انسدادی نظریے کی پیروی کرنے والے ممالک میں سعودی عرب سرفہرست ہے جہاں قاتل کا سرعام سر تن سے جدا کیا جاتا ہے اور چور کے ہاتھ سرعام کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث لوگوں کے دل میں سزا کا خوف ہمہ وقت موجود رہتا ہے اور انہیں جرائم کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ دوسری جانب اصلاحی نظریے کی پیروی کرنے والے میں ممالک میں سویڈن، ناروے، ڈنمارک، سوئزرلینڈ اور برطانیہ جیسے ممالک شامل ہیں جہاں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو اصلاح کے بہترین مواقع فراہم کئے جائیں اور اگر کوئی مجرم سدھر جائے تو اسے کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ ممالک کی جیلوں میں مجرموں کے ساتھ ممکنہ حد تک بہتر رویہ اپنایا جاتا ہے اور اگر کوئی مجرم خود کو سدھار لے تواسے سزا پوری ہونے سے قبل پیرول پر رہا کئے جانے کا رواج عام ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جرائم کے خاتمے کے حوالے سے انسدادی اور اصلاحی دونوں نظریات کا ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے لیکن تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود گزشتہ دہائیوں میں مملکت خداداد کی وجہ شہرت جرائم بن گئی ہے اور ہمارا ملک بدامنی، دہشت گردی، کرپشن، رشوت ستانی، کاروکاری، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری، اسمگلنگ، فراڈ اور سائبر کرائم سمیت کئی دیگر جرائم کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہے اور بدنامی کا یہ داغ روزبروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ وہ عوامل جو ہمارے ملک میں جرائم کے اضافہ کا سبب بن رہے ہیں ان کی نشاندہی اور ان کے سدباب کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور نئی سفارشات کے حوالے سے یہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے تاکہ ارباب اختیار کو جھنجھو ڑ کر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
جرائم میں اضافے کی وجوہات
ناقص قانون سازی اور غیرمساوی نفاذ h1
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 8 کے تحت ایسے تمام قوانین جو بنیادی حقوق کے مخالف ہوں وہ کالعدم متصور ہوں گے۔ *
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 227 کے تحت تمام ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق اسلامی سانچے میں ڈھالا جانا *
ضروری امر ہے۔
اس ملک میں قانون سازی ہمیشہ سے نظریہ ضرورت اور مصلحت سے متاثررہی ہے۔ ملکی تاریخ ایسے قوانین کی متحمل بھی ہوئی ہے جنھیں کالا قانون کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ مجلس شورٰی میں بیٹھے افراد عوام کے مفاد کو کم اور اپنے مفادات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ملک کے تین اہم ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔ مقننہ کا کام قانون سازی کرنا ہے، انتظامیہ کا کام قانون کو نافذ کرنا اور عدلیہ کا کام قانون کے تحت لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے اور اگر یہ تینوں ادارے مل جل کر کام نہ کریں تو پھر دنیا کا بہترین آئین اور قانون بھی کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ان تین اداروں کی مابین تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون تو بہت بنتے ہیں لیکن بے سود اور بے فائدہ اور قانون وجود میں آنے کے بعد بھی اسکا نفاذ نہایت سختی کے ساتھ کمزور لوگوں پر کیا جاتا ہے جبکہ امیر اور طاقتور لوگ قانون کو توڑنا اپنا محبوب مشغلہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہر مسئلے کا حل قانون سازی میں تلاش کرنے اور نت نئے قوانین بنانے کے بجائے ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے ملک کے تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ایک دوسرے سے تعاون کریں اورملکی مفاد کو ہر حال میں ملحوظِ نظر رکھا جائے۔ ذیل میں ایک قانون کا حوالہ پیش کیا گیا ہے جو کہ ناقص قانون سازی کا منہ بولتا ثبوت ہے:۔
National Reconciliation Ordinance 2007.2
سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مک مکا کی سیاست کے تحت نظریہ ضرورت اور مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ایک ایسا قانون جس کے ذریعے ملک کی سیاسی قیادت کے برخلاف 01 جنوری 1986 ء تا 12 اکتوبر 1999 ء کے دوران قائم ہونے والے متعدد سنگین نوعیت کے جرائم کو ختم کر دیا گیا جس کے باعث عوام میں شدید احساس محرومی پیدا ہو ا اور لوگ سیاستدانوں کو قانون سے مستثنیٰ سمجھنے لگے تھے لیکن بالآخر یہ قانون اپنے منطقی انجام کو اس وقت پہنچا جب ملکی عدالت عظمیٰ نے 16 دسمبر 2009 ء کو اپنے تاریخ ساز فیصلے کے ذریعے اس قانون کو کالعدم قرار دے ختم کئے گئے تمام مقدمات کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
ناقص پولیس نظام:۔ h3
اگر ہم اپنے پولیس کے نظام کا جائزہ لیں تو وہاں کی صورتحال سب سے ابتر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جو مجرم قانون کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں وہ
اس کمزور نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلد آزاد ہو جاتے ہیں اور پھر سہل آزادی کے بعد دوبارہ جرم سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ جر چاہے جو بھی ہو اس کے خلاف کاروائی کا آغاز محکمہ پولیس سے ہوتا ہے اور مشاہدے کے مطابق اولاََ تو کوئی مقدمہ درج ہی نہیں کیا جاتا اور بھاری رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن جب بھی کوئی FIR درج ہوتی ہے پولیس کی چاندی ہو جاتی ہے کیونکہ پولیس قانون پر عمل دراآمد کم اور اپنی سابقہ روایات پر عمل زیادہ کرتی ہے اور سابقہ روایات میں یہ بھی شامل ہے کہ جس شخص نے مقدمہ درج کرایا ہے اس سے رقم اینٹھی جائے اور اس کے بعد ملزم کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کی جائے چاہے وہ ملزم بے گناہ ہی کیوں نہ ہو اور اگر کوئی مدعی رقم ادا نہ کرے تو پھر رقم کا مطالبہ ملزم سے کیا جاتا ہے تاکہ اسے بے گناہ قرار دیا جائے چاہے وہ قصوروار کیوں نہ ہو۔ اس طرح سے جرم کے خلاف کاروائی پہلے مرحلے میں ہی کرپشن کا شکار ہو جاتی ہے اور کیس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے پھر ایک کمزور اور لاغر مقدمہ ناکافی ثبوت اور گواہوں کے ساتھ عدالت کو پیش کر دیا جاتا ہے جہاں سے ملزمان باآسانی باعزت بری ہو کر دوبارہ جرائم کرنے کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں اور یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ محکمہ پولیس کے بعض افراد اس حد تک کرپٹ ہو چکے ہیں کہ وہ کسی بھی مرحلے پر معاملے کو رفع دفع کرنے پر رضا مند ہو جاتے ہیں اور جھوٹی گواہیوں اور دیگر طرح کے غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے ملزمان کو ریلیف مہیا کیا جاتا ہے تاکہ وہ مقدمے سے بری ہو جائیں۔
محکمہ پولیس بالخصوص کراچی میں ایک اور رواج عام ہے کہ ہر تھانے کے SHO صاحب ایک بھاری رشوت دے کر عہدہ حاصل کرتے ہیں جس کے لئے باقاعدہ بولی لگائی جاتی ہے اور جو افسر سب سے زیادہ بولی دیتا ہے اسے عہدہ مل جاتا ہے۔ جو تھا نہ جتنا زیادہ اہم ہوتا ہے وہاں رشوت کی رقم اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کے بعد تعینات ہونے والے افسر کے فرائض میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص رقم جسے منتھلی کہا جاتا ہے وہ اپنے افسران بالا کو تواتر سے پہنچائے ورنہ اسے فوراََ عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اب تھانے کے SHO صاحب کو اپنی رشوت میں دی گئی رقم کے علاوہ افسران بالا کی ڈیمانڈ بھی پوری کرنی ہوتی ہے جو کہ وہ اپنی تنخواہ میں سے نہیں کر سکتا لہٰذا اس کا بندوبست علاقے میں جرائم کی سرپرستی کر کے کیا جاتا ہے اور عادی مجرموں کو رقم کے عوض ناجائز دھندوں کے لئے کھلی چھوٹ مل جاتی ہے اور جب معاملہ آ جائے کارکردگی دکھانے کا تو وہی کرپٹ افسر اپنے علاقے میں کچرا اٹھانے والے، بھکاری اور عام محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ زیادہ شور شرابہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں ان افراد کو ڈکیت، دہشت گرد اور منشیات فروش ظاہر کر کے جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں یا پھر جعلی پولیس مقابلے کر کے عوام کو اپنی کارکردگی دکھائی جاتی ہے جبکہ اصل مجرم بلاخوف و خطر جرم کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ علاقہ کے SHO کی آمدن کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ Human Rights Commission Pakistan کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2013 ء میں ملک بھر کے اندر 357 پولیس مقابلے ریکارڈ ہوئے جن میں 503 مشتبہ افراد ہلاک جبکہ 49 افراد زخمی ہوئے۔ ان پولیس مقابلوں میں شہرِ قائد کراچی سرفہرست جبکہ لاہور دوسرے نمبر پر رہا۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے ملنے والے محکمانہ فنڈز افسران بالا خرد برد کر کے ہڑپ کر جاتے ہیں اور پھر ماتحت پولیس عملے کو اپنے روزمرہ کے معاملات چلانے کے لئے بھی ناجائز ذرائع کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں وقتاََ فوقتاََپولیس میں سیاسی افراد کو بھرتی کیا گیا تاکہ وقت آنے پر ان کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے لہٰذا میرٹ پر تقرری نہ ہونے کے باعث محکمہ پولیس کی اکثریت جرائم پیشہ افراد کی سرپرست بن گئی ہے ۔ قانون کے محافظوں کا یہ طرزِ عمل جرائم میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے جس کے خاتمہ کے لئے رشوت جیسی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور میرٹ پر بھرتی اور میرٹ پر تقرری کا اصول اپنانا ہو گا۔
محکمہ پولیس میں ایک اور بڑا نقص یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اس محکمے میں خواتین اہلکاروں کی تعداد نہایت کم ہے اور جو موجود ہیں انہیں بھی اپنے ہی محکمے
کے اعلٰی افسران سے بیش بہا شکایات ہیں جن میں سے کچھ شکایات ایسی ہیں جن کو محض سن لینا بھی کسی شریف النفس شخص کے لئے گوارہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں خواتین کے پولیس اسٹیشن بھی انتہائی کم ہیں اور اگر کوئی عورت کسی جرم میں گرفتار کر لی جاتی ہے تو اسے عام پولیس اسٹیشن میں ہی ٹھہرایا جاتا ہے جہاں ان کے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتا ہے جس کے باعث خواتین کی ایک بڑی اکثریت پولیس اسٹیشن کا رخ کرنے سے گھبراتی ہے۔یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث عورتیں اپنے ساتھ ہونے والے جرائم کی رپورٹ درج کرانے نہیں جا سکتی اور اس کے نتیجے میں مجرم کو حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے تھانوں کا ماحول ایسا ہے کہ وہاں مرد حضرات بھی جانے سے کتراتے ہیں لہٰذا عورتیں تو انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی شاذ و نادر ہی تھانے کا رخ کرتی ہیں اور پھر جو عورت تھانے چلی جائے اس کے ساتھ ایسا رویہ برتا جاتا ہے کہ وہ کبھی دوبارہ وہاں قدم رکھنے کا بھی نہیں سوچ سکتی۔ عورتوں کے لئے مخصوص تھانوں اور جیلوں کی عدم دستیابی کے باعث صورتحال انتہائی شرمناک ہو چکی ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
ناقص عدالتی نظام:۔ h4
کوئی بھی مقدمہ یا مجرم پولیس تفتیش کا ابتدائی مرحلہ طے کرنے کے بعد عدالت کے سپرد کر دیا جاتا ہے جہاں محترم مجسٹریٹ صاحب آنکھیں بند کر کہ پولیس رپورٹ کو منظور کرتے ہیں اور پھر سال ہا سال مقدمہ چلنے کے بعد محض Benefit of Doubt کی بنا پر ملزم کو بری کر دیا جاتا ہے اور اگر کسی نے مقدمہ جھوٹا بھی درج کیا ہو تو اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے۔ جو لوگ با اثر اور امیر ہوتے ہیں نہ صرف ان کے مقدمات کا فیصلہ جلد ہو جاتا ہے بلکہ مقدمے کی سماعت کے دوران ان سے VIP برتاؤ روا رکھا جاتا ہے جبکہ اس کے بر عکس غریب لوگوں کے مقدمات سال ہا سال چلتے رہتے ہیں اور روز اول سے ہی ان کے ساتھ ملزم کے بجائے مجرم جیسا برتاؤ روا رکھا جاتا ہے۔ ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ بدقسمتی سے سفارشی کلچر کی وجہ سے نااہل اور نہایت غیر ذمہ دار افراد جج کے عہدوں پر فائز ہوئے ہیں ۔ماہ جون 2014 ء میں گیلپ پاکستان اور وومن اسلامک لائرز فورم کے اشتراک سے کئے جانے والے ایک سروے کے مطا بق 95 %افراد کی رائے میں پاکستان کا عدالتی نظام کرپشن کا شکار ہے۔ اس سروے میں وکلاء، فریقِ مقدمہ افراد، اور کورٹ اسٹاف نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔90% افراد کے خیال میں عدالتی نظام میں رشوت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے جبکہ 81% افراد نظام میں اقرباء پروری کی شکایت کرتے ہیں ۔ اسکے علاوہ 80% افراد دھوکہ دہی اور فراڈ کو بھی اس نظام کی خرابی کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ اس کرپشن میں کورٹ اسٹاف، وکلا اور ججز تمام کسی نہ کسی طرح سے ملوث ہیں
مزیدیہ کہ سروے میں شامل افراد میں سے 81% کا خیال ہے کہ ججوں کی تقرریاں اہلیت کی بجائے سفارشی بنیادوں پر یا پھر رشوت لے کر کی جاتی ہیں لہذا ججز کے فیصلے انصاف کے مطابق نہیں ہوتے ۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونا:۔ h5
دنیا بھر میں رائج قوانین کے تحت دی جانے والی سزاؤں میں سب سے بھیانک اور سخت ترین سزا سزائے موت ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں سنگین جرائم کا ارتکاب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی بڑی و جہ یہ بھی تھی کہ عرصہ دراز سے حکومت نے بیرونی دباؤ کے تحت سزائے موت پر عمل درآمد روک رکھا تھا اور موجودہ حکومت کا سب سے احسن اقدام عرصہ دراز سے سزائے موت پر عائد پابندی کو ختم کیا جانا
ہے۔ سزائے موت پر عمل درآمد کی وجہ سے دہشت گرد ی کی کاروائیوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ اس اقدام سے قبل دہشت گردوں کے سرغنہ ملک کی مختلف جیلوں میں رہ کر اپنا نیٹ ورک قائم رکھے ہوئے تھے جو اب کسی حد تک ناکام ہو چکا ہے۔ 2009 ء تا 2013 ء تک سزائے موت پر عمل درآمد کا سلسلہ موقوف رہا تھا جسے سال 2014 ء کے اواخر میں دوبارہ شروع کیا گیا اور اب تک لگ بھگ 150 افراد کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
میڈیا کا منفی کردار:۔ h6
* آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 14 کے تحت کسی بھی شخص کی عزتِ نفس اور گھریلو تقدس کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔
* آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 37 کی شق (g) کے تحت حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ فحاشی اور عریانی کے فروغ پر روک لگائی جائے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے ملک میں میڈیا چینلز کی بھر مار ہو گئی ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ خبریں کم اور نیوز چینل زیادہ موجود ہیں ۔ ہر نیوز چینل Satelite Hours کی ادائیگی کے علاوہ عملے کی تنخواہیں و دیگر اخراجات وغیرہ کو پورا کرنے کے لئے ایسے ایسے پرگرام نشر کرنے لگا ہے جن کی بدولت زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل کئے جا سکیں اور ریٹنگ کی دوڑ میں دوسرے چینل کو پیچھے چھوڑا جا سکے۔ نیوز چینل کی دوڑ میں ایسے ایسے پروگرام نشر ہونے لگے ہیں جن کے معاشرے کے اوپر منفی نتائج مرتب ہو رہے ہیں اور گھروں پر بیٹھے ناسمجھ بچے جرم کرنا سیکھ رہے ہیں اس طرح میڈیا نادانستہ طور پر معاشرے میں نئے مجرموں کو پروان چڑھا رہا ہے اور عادی مجرموں کو قانون کی کمزوریوں سے آگاہ کر کہ انہیں قانون کے شکنجے سے بچنے کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی جرم کے ارتکاب کے فواراََ بعد میڈیا کی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ کر مجرم کے خلاف حاصل کئے جانے والے گواہوں اور ثبوتوں کی تمام تر تفصیلات براہ راست نشر کر دیتا ہے جس کو مجرم کسی بھی جگہ بیٹھ کر باآسانی دیکھتے ہیں اور اس کے بعد ان گواہوں اور ثبوتوں کے اپنے خلاف استعمال سے بچاؤ کے لئے ہر ممکن جتن کرتے ہیں ۔ سنگین تر صورتحال اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب کوئی عورت میڈیا میں بدنام ہو جانے کے خوف کی وجہ سے خودکشی کر لیتی ہے یا پھر حالات اور واقعات سے تنگ لوگ جب کسی جگہ پر خود سوزی کا اقدام کرتے ہیں تو میڈیا والے اس شخص کی مدد کے بجائے انتہائی سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ویڈیو اور تصاویر بنانے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ انہیں ایک اچھی خبر مل سکے۔ ان تمام امور سے درکنار کرپشن کی وبا نے میڈیا میں بھی اپنی جڑیں مظبوط بنا لی ہیں اور اب میڈیا کی نمائندے بلیک میلنگ کے ذریعے رقوم حاصل کرنے لگے ہیں جس کا سب سے بڑا ذریعہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بنتے ہیں جن کے کالے دھندوں کا کھوج لگا کر انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر پروگراموں میں گھریلو چار دیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے میڈیا اینکرز لوگوں کے گھروں میں کیمرے لئے گھس جاتے ہیں اور براہ راست لوگوں کی تذلیل کی جاتی ہے جو کہ
آئینی و قانونی طور پر قطعی درست نہیں ہے۔
غیر ملکی مداخلت:۔ h7
ماہ جون 2006 ء میں اسوقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اسرائیلی شہر تل ابیب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک ن
منصوبے کا انکشاف کیا جس میں تمام وسطی ایشیائی ممالک کا نیا نقشہ دکھایا گیا تھا جسے امریکی فوج کے Lt. Col. Ralph Peters نے تیار کیا تھا جو کہ U.S National War Acadmey سے ریٹائرڈ تھے۔اس نقشہ کوامریکی جریدے Armed Forces Journal میں بھی شائع کیا گیا تھا۔ اس نقشے کے تحت اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر امریکہ نے وسطی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان کی سرحدوں کی ازسرِ نو تشکیل دینے کا منصوبہ تیار کیا جو کہ کسی بھی ملک کی خودمختاری پر کھلا حملہ تھا لیکن طاقت کے نشے میں سر مست امریکہ نے مسلمان ممالک کے ابدی دشمن اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ایک نہایت ہی شرمناک منصوبہ تشکیل دیا ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امریکہ نے پسِ پردہ اپنی کاروائی جاری رکھی ہوئی ہے اور متعدد بار پاکستان کی سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ڈرون حملوں اور دیگرہتھکنڈوں کے تحت ان علاقوں میں شورش برپا کئے ہوئے ہے جن کو مذکورہ نقشے میں پاکستان سے نکال کر افغانستان اور آزاد بلوچستان کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے۔ Human Rights Commission Pakistan کی رپورٹ برائے سال 2013 میں امریکہ کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر کئے جانے والے ڈرون حملوں کی تعداد31 تھی جن میں ہزاروں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والے ان افراد میں سے اکثریت معصوم اور نہتے شہریوں کی ہوتی ہے جن میں خو اتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں لیکن چونکہ آپریشن کے زیرِ اثر علاقوں میں میڈیا نمائندگان وغیرہ کی بلا روک ٹوک دسترس نہیں ہے اس وجہ سے وہاں ہونے والی اموات کے درست اعداد و شمار حاصل نہیں ہو پاتے اور بات دب جاتی ہے اور اگر کبھی کبھار کوئی دہشت گرد کسی ڈرون حملے میں مر جاتا ہے تو صرف اسی کی خبر نشر کی جاتی ہے۔ پاکستان کے اندر امریکہ کی اس مداخلت سے بلاشبہ پاکستانی شہریوں کا غصہ عروج پر ہے اور لوگ امریکہ کی نفرت میں اس قدر گزر گئے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے بھی نہیں کتراتے ہیں جو کہ جرائم میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔
امریکہ کے علاوہ ہمارے ملک کے ازلی اور تا ابد قائم رہنے والے دشمنان ممالک بھارت اور اسرائیل بھی اس مہم میں پیش پیش ہیں اور ااپنی ایجنسیوں RAW اور MOSAD کے ذریعے پاکستان میں بہت ساری دہشت گردی کی کاروائیاں سر انجام دے رہے ہیں جن کے باعث ملک میں انارکی اور بدامنی کی فضا قائم ہے اور ہمارے ملک میں روزبروز جرائم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے ۔ ایسے بیش بہا واقعات سامنے آئے ہیں جہاں پر ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران جب دہشت گردوں کی کمین گاہوں پر چھاپے مارے گئے تو وہاں سے جدید بھارتی اور اسرائیلی ساختہ اسلحہ و گولہ بارود برآمد ہواجس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں جاری دہشت گردی کے پیچھے ہمارے دشمن ممالک بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ ہے اور وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے خاطر یکجا ہو کر دہشت گردوں کو رقوم اور اسلحہ مہیا کرتے ہیں اور ان کو پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں استعمال کرتے ہیں جس کے باعث پورے ملک کا نظام درہم برہم ہے اور ہر طرف جرائم اور لاقانونیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اس لئے یہ امر نہایت ناگزیر ہے کہ عالمی اداروں یعنی UNO کے تعاون سے پاکستانی علاقوں FATA اور بلوچستان میں امریکی اور بھارتی مداخلت کو ختم کرایا جائے اور انہیں سرحدوں کی
پاسداری کا پابند بنایا جائے تاکہ ملک سے بد امنی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے۔ 28 مئی 2015 ء کو یوم تکبیر کے موقع پر پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان کے ذریعے سے بھارتی خفیہ ایجنسی RAW کی پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی تصدیق کی اور اس حوالے سے تمام ثبوتوں کو اقوام متحدہ کے حوالے کئے جانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا جو کہ ایک مناسب ردِ عمل ہے۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
NEW MIDDLE EAST MAP
امریکہ کی جانب سے پیش کردہ وسطی ایشیائی ممالک کا نیا نقشہ
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
جرائم کی مختلف انواع اور ان کا سدباب
.1 ( قتل )
* دفعہ نمبر 302 تعزیراتِ پاکستان میں قتل عمد کی سزا حد اور تعزیر دونوں حوالہ جات سے فراہم کی گئی ہے جو کہ حد ثابت ہو جانے کی صورت میں قصاص اور دیت دی گئی ہے جبکہ تعزیر کی صورت میں سزائے موت، عمر قید یا 25 برس قید با مشقت فراہم ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران ملک میں پیش آنے والے قتل کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے اعداد و شمار رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ قتل کو دنیا کے ہر ملک، مذہب، معاشرے اور قانون کی نظر میں بھیانک ترین جرم سمجھا جاتا ہے اور ہر ملک نے سب سے بھیانک سزا بھی تجویز کر رکھی ہے جبکہ پاکستان کے قانون کے مطابق سزائے موت مقرر ہے لیکن اس کے باوجود حالت دگرگوں ہے۔ زمانہ قدیم میں قتل کے صرف تین اسباب گردانے جاتے تھے جو کہ زر، زن اور زمین تھے لیکن موجودہ دور میں قتل کے اسباب اور وجوہات اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا تقریباََ ناممکن ہو گیا ہے بہر کیف پاکستانی معاشرے میں پنپنے والے جرائم کی بنیادی وجوہات بیان کی جا چکی ہیں ۔ذیل میں ان جرائم کی چند چیدہ چیدہ اقسام ، ان کی وجوہات اور ان کے سدِباب کے لئے اقدامات کوتفصیل سے بیان کیا جانا ازحد ضروری ہے۔
(a) مالی تنازعات پر قتل:۔
جماعت اسلامی پاکستان کے ایک ذیلی شعبےWomen and Family Commission, Karachi نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے سال 2015 ء جس کا عنوان Voilence Against Women & Girls (VAWG) In Pakistan ہے اس میں مالی معاملات کی بنا پر پیش آنے والے قتل کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2013 ء میں ایسی اموات کی تعداد 265 افراد ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد زیادہ ہو کر 338 افراد تک پہنچ گئی۔
سفارشات:۔
مالی تنازعات کے حل کے لئے حکومت کو چائیے کہ نچلی سے نچلی سطح پر معاملہ فہم اور غیر جانبدار افراد کو بطور ثالث مقرر کرے جو بلا معاوضہ اور فوری طور پر افراد کے مابین مالی تنازعات کو حل کر سکیں تاکہ لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر ایک دوسرے کے خلاف کاروائیوں سے باز رہیں۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
(b) گھریلو تنازعات پر قتل:۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں گھریلو معاملات کی بنا پر پیش آنے والے قتل کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2013 ء میں ایسی اموات کی تعداد 280 افراد ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد زیادہ ہو کر 311 افراد تک پہنچ گئی۔
سفارشات:۔
گھریلو تنازعات کے حل کے لئے حکومت کو چائیے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے سے منتخب ہونے والے نمائندوں پر مشتمل ثالثی کمیٹیاں قائم کرے جو کہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کے گھریلو تنازعات حل کرنے میں ہر ممکن مدد کریں۔
(c) قبائلی تنازعات پر قتل:۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں قبائلی تنازعات کی بنا پر پیش آنے والے قتل کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2014 ء میں یہ تعداد 218 افراد تک ریکارڈ کی گئی۔
سفارشات:۔
قبائلی علاقوں میں رہنے والے مختلف قبائل کے بااثر افراد پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائیں جن کا کام اپنے اپنے قبیلے کے افراد کی ہر طرح سے امن قائم رکھنے شرط کو یقینی بنانا ہو۔
(d) معمولی تنازعات پر قتل:۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں معمولی تنازعات کی بنا پر پیش آنے والے قتل کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2014 ء میں یہ تعداد 30 افراد تک ریکارڈ کی گئی۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
(e) سابقہ ازواج کی جانب سے قتل:۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں سابقہ ازواج میں سے کسی ایک کی جانب سے دوسرے کو قتل کئے جانے جیسے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2013 ء میں ایسی اموات کی تعداد 6 افراد ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد زیادہ ہو کر 15 افراد تک پہنچ گئی۔
سفارشات:۔
ازواج میں علیحدگی ہو جانے کے بعد معاملات کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ فیملی کورٹس اور مصالحتی کمیٹیوں کی کردار کو مزید فعال بنایا جائے نیز فیملی کورٹ مصالحتی کمیٹی کہ اپنے Procedure میں شامل کرتے ہوئے ازواج کو لازماً مصالحتی کمیٹی کے پاس بھیجے تاکہ ازواج کے مابین معاملات مزید خرابی سے بچ سکیں۔
(f) بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ:۔
دفعہ نمبر 7 انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 ء کے تحت دہشت گردی میں ملوث افراد کے لئے سزائے موت مقرر کی گئی ہے۔ *
تحفظ پاکستان ایکٹ2014 ء کے تحت مملکت پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرنے والے افراد کو کم از کم 20 برس سزائے *
قید کا مستحق ٹھرایا گیا ہے جبکہ بعض مقدمات میں سزائے موت یا عمر قید بھی دی جا سکتی ہے۔
اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سے دہشتگردی کے جرائم میں ملوث افراد کے مقدمات کو *
خصوصی فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
ملک میں جاری بد امنی اور دہشت گردی کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت نے حالیہ چند برسوں میں جو قانون سازی کی ہے اسکے اعداد و شمار کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں جاری آپریشن اور مروجہ قوانین پر عمل درآمد کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے 2013 ء کے مقابلے میں 2014 ء کے سال ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے تحت ہونے والی اموات میں کچھ حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں جاری فوجی آپریشن اور عدلیہ کی جانب سے دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں پر مستقل نگرانی کے وجہ سے بھی اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ایک ذیلی شعبےWomen and Family Commission, Karachi نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے سال 2015 ء جس کا عنوان Voilence Against Women & Girls (VAWG) In Pakistan ہے اس میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2013 ء میں ٹارگٹ کلنگ کے تحت ہونے والی اموات 2675 افراد ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد کم ہو کر 1802 افراد تک پہنچ گئی۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
سفارشات:۔
اگر اسی طرح مستقل مزاجی کے ساتھ وقتاََ فوقتاََ فوجی آپریشن، پولیس کی اصلاح اور عدلیہ کی اصلاح، اداروں کے آپسی تعاون کا عمل اگرجاری و ساری رہا تو وہ دن دور نہیں ہے جب ہمارا ملک دہشتگردی جیسی قبیح لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لے گا لیکن حکومت کی جانب سے سنجیدگی اور مستقل مزاجی شرطِ اول ہے۔
(g) غیرت کے نام پر قتل:۔
دفعہ نمبر 302 تعزیراتِ پاکستان میں غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل کی سزا کسی بھی طور پر قصاص بطور *
حد اورسزائے موت و عمر قیدبطور تعزیر سے کم نہیں ہے۔
پاکستانی معاشرے میں غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل کی سب سے بڑی قسم کارو کاری ہے جسے علاقائی نسبت سے کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔ قتل کی یہ قسم کوئی نئی نہیں ہے بلکہ زمانہ جاہلیت سے رائج ہے ۔ اس خطے کے وہ علاقے جہاں اسلام نے خوب ترقی پائی ہے وہاں اس قسم کے قتل نہ ہونے کے برابر اور جہاں بدقسمتی سے لوگ دین سے دور ہیں وہاں اس قسم کے قتل معمول کے واقعات ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق مذہب سے دوری اور علم کی کمی ہے۔ Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں غیرت کے نام پر قتل کئے جانے جیسے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2013 ء میں ایسی اموات کی تعداد 249 افراد ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد زیادہ ہو کر 405 افراد تک پہنچ گئی۔ Human Right Commission Pakistan کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2013 ء میں ملک بھر میں غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل کی تعداد 869 بتائی گئی ہے جبکہ پاکستانی اخبار Express Tribune مورخہ 9 فروری 2015 ء میں شائع کردہ سرکاری اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سال 2013 ء میں غیرت کے نام پر ہونے والی اموات کی تعداد پورے ملک میں 456 تھی جن میں سے 28 کا تعلق بلوچستان، 66 کا پنجاب، 47 کا خیبر پختونخواہ اور 315 کا تعلق سندھ سے تھا اس کے مقابل اگر سال 2014 کا جائزہ لیا جائے تو غیرت کے نام پر ہونے والی اموات کی تعداد پورے ملک میں 477 تھی جن میں سے 32 کا تعلق بلوچستان، 80 کا پنجاب، 78 کا خیبر پختونخواہ اور 287 کا تعلق سندھ سے تھا یعنی مسلسل دو سالوں سے سندھ میں ہونے والی اموات کی تعداد باقی تمام صوبوں میں ہونے والی اموات کی تعداد کے دو گنا سے بھی زیادہ ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے سندھ کے دارالحکومت کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ اگر کسی بھی شہر میں جائیں تو وہ شہر آج بھی زمانہ قدیم کے شہروں کی تصویر پیش کرتے ہیں، ان شہروں میں بسنے والے افراد کی اکثریت آج بھی دین اسلام کے بنیادی عقائد سے نابلد ہے اور تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے مزید غربت اور استحصالی نظام نے وہاں کے لوگوں کو اس قبیح قسم کے قتل کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے سے روک رکھا ہے لیکن وہاں کے عوام کی اس حالت زار کا قصور وار کون ہے اس کی
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
ذمہ داری ہر کوئی دوسرے پر ڈال کر خود تنقید کرتا ہے۔ اگر کسی وڈیرے یا سردار کوذمہ دار ٹھرایا جائے توپولیس کی جانب سے یہ عذر سامنے آتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں کرتا اور اگرذمہ داری لوگوں پر ڈالی جائے تو لوگ یہ گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں تھانے اور کچہری کا نظام ایسا ہے جس سے انصاف کی توقع کرنا بیکار ہے اور اگر کبھی بھولے بسرے یہ ذمہ داری عدلیہ پر ڈال دی جائے تو عدلیہ کی جانب کسی بھی وقت توہین عدالت کا نوٹس موصول ہونے کاخطرہ سر پر منڈلانے لگتا ہے اور باقی سوال بچا حکومت کا تو اس کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ ملک میں آنے والی ہر حکومت پانچ سال میں اگر نہایت سنجیدگی اور دلجمعی کے ساتھ کوئی کام کرتی ہے تو وہ صرف آئندہ الیکشن کی تیاری ہے اس کے علاوہ کوئی بھی کام سنجیدگی سے نہیں کیا جاتا جو کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کی جڑ ہے۔
عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ غیرت کے نام قتل ہونے والی صرف خواتین ہی ہوتی ہیں جو کہ بالکل غلط تاثر ہے بلکہ اس کا اکثر شکار مرد بھی بنتے ہیں۔ Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں غیرت کے نام پر قتل کئے جانے جیسے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2013 ء میں ایسی اموات کی تعداد 249 افراد ریکارڈ کی گئی جن میں سے 78 افراد مرد تھے جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد زیادہ ہو کر 405 افراد تک پہنچ گئی جن میں مرد حضرات کی تعداد 136 بیان کی گئی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں غیرت کے نام پر رائج قتل کی ایک دوسری قسم کاروکاری سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ اس قسم کے قتل کی وجہ عورتوں کا لڑکیوں کو جنم دینا ہے۔ Human Right Commission Pakistan کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2013 ء میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس سال 56 خواتین کو صرف اس وجہ سے قتل کر دیا گیا کہ انہوں نے بیٹے کے بجائے بیٹی کو جنم دیا تھا۔ اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دین اسلام کی آمد سے قبل یہ رواج عام تھا کہ لوگ بیٹی کی ولادت کو معیوب جانتے تھے اور کئی افراد بیٹی پیدا ہو جانے پر اسے زندہ درگور کر دیتے تھے لیکن اسلام کی آمد کے بعد اس ظالمانہ رسم کا نہ صرف خاتمہ کیا گیا بلکہ بیٹی کی ولادت کو باعث رحمت قرار دیا گیا نیز قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا کہ وہ جس کو چاہے بیٹے عطا کرتا ہے اور جس کو چاہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اس میں انسان کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہے علاوہ ازیں سرکار دو عالم حضرت محمدﷺ خود بھی صرف بیٹیوں سے نوازے گئے اور آج سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود یہ بات قطعی طور پر طے ہے کہ کوئی انسان اپنی خواہش کے مطابق بیٹے یا بیٹیاں پیدا کرنے سے قاصر ہے لہٰذا ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کی حالت زار اور جہالت پر نہایت افسوس ہوتا ہے کہ جو محض اس بنا پر کسی عورت کو قتل کر دیتے ہیں کہ اس عورت کے ہاں لڑکی کی پیدائش ہوئی ہو یہ عقیدہ محض تنگ نظری اور جہالت کی وجہ سے رائج ہے جس کے خاتمہ کے لئے ہمارے علمائے کرام کو بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں غیرت کے نام پر ہونے والی اموات کو کسی نہ کسی طور پر مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہے اور اسلامی قانون اس کی اجازت دیتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور ایسے قتل نہ تو اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہیں اور نہ ہی دین اسلام اس اقدام کی اجازت دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا بھر میں مسلم ممالک کے سربراہ اور ترجمان اپنے عقائد اور نظریات کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئے ہیں جس کی وجہ گزشتہ دہائیوں میں اسلام مخالفین نے ہر برائی کو اسلام کے ساتھ منسلک کر دیا ہے .
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
سفارشات:۔
غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل کے مقدمات کو دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں منتقل کیا جائے تاکہ جرم ثابت ہو جانے کی صورت میں مقدمہ کسی بھی طور پر قابل راضی نامہ نہ رہے اور مجرموں کو نشانِ عبرت بنایا جائے لیکن اس امر میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جا سکے جس کی تمام تر ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مقدمے کے ہر پہلو پر غور کرے اور اس بات کا پتہ چلائے کہ آیا کوئی قتل واقعی غیرت کے نام پر کیا گیا ہے یا عام قتل کی نوعیت کو سنگین بنانے کے لئے اس کو غیرت کے نام پر کئے جانے کے رنگ میں ڈھالا گیا ہے۔
( جرائم بر خلاف خواتین )
(a) تیزاب پھینکنا:۔
* دفعہ نمبر 336-B تعزیرات پاکستان کے تحت کسی شخص پر تیزاب پھینک کر جلانے کے جرم کے لئے سزائے قید کی صورت میں کم از کم چودہ برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید مقرر کی گئی تھی اس کے علاوہ جرمانے کی زیادہ سے زیادہ حد دس لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
سال 2011 ء میں تعزیرات پاکستان میں ایک ترمیم کے ذریعے دفعہ نمبر 336-B کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے تحت کسی شخص پر تیزاب پھینک کر جلانے کے جرم کے لئے کڑی سزا تجویز کی گئی جبکہ تیزاب کے علاوہ دیگر کسی طریقے سے جلانے کے جرم میں اتنی کڑی سزا مقرر نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے قانون میں کی گئی ترمیم کے ذریعے 2013 ء کے مقابلے میں 2014 ء کے سال تیزاب پھینکنے کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔Human Right Commission Pakistan کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2013 ء میں اس بات کا اقرا ر کیا گیا ہے کہ اس سال جلائے جانے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد صرف 46 تھی جبکہ یہی تعداد سال 2014 ء میں کم ہو کر صرف 12 رہ گئی ہے جو کہ ایک نہایت خوش آئند امر ہے۔
سفارشات:۔
تیزاب پھینک کر جلانے کے لئے جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں وہی سزائیں اگر باقی تمام طریقوں سے جلانے پر بھی عائد ہوجائیں تو خاطر خواہ کمی کی امید کی جا سکتی ہے۔
(b) زنا و زنا بالجبر:۔
دفعہ نمبر 376 تعزیرات پاکستان کے تحت زنا کے مرتکب مجرم کے لئے سزائے موت یا سزائے قید جس کی کم از *
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
سفارشات:۔
غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل کے مقدمات کو دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں منتقل کیا جائے تاکہ جرم ثابت ہو جانے کی صورت میں مقدمہ کسی بھی طور پر قابل راضی نامہ نہ رہے اور مجرموں کو نشانِ عبرت بنایا جائے لیکن اس امر میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جا سکے جس کی تمام تر ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مقدمے کے ہر پہلو پر غور کرے اور اس بات کا پتہ چلائے کہ آیا کوئی قتل واقعی غیرت کے نام پر کیا گیا ہے یا عام قتل کی نوعیت کو سنگین بنانے کے لئے اس کو غیرت کے نام پر کئے جانے کے رنگ میں ڈھالا گیا ہے۔
( جرائم بر خلاف خواتین )
(a) تیزاب پھینکنا:۔
دفعہ نمبر336-B تعزیرات پاکستان کے تحت کسی شخص پر تیزاب پھینک کر جلانے کے جرم کے لئے سزائے قید کی صورت میں کم از کم چودہ برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید مقرر کی گئی تھی اس کے علاوہ جرمانے کی زیادہ سے زیادہ حد دس لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
سال 2011 ء میں تعزیرات پاکستان میں ایک ترمیم کے ذریعے دفعہ نمبر 336-B کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے تحت کسی شخص پر تیزاب پھینک کر جلانے کے جرم کے لئے کڑی سزا تجویز کی گئی جبکہ تیزاب کے علاوہ دیگر کسی طریقے سے جلانے کے جرم میں اتنی کڑی سزا مقرر نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے قانون میں کی گئی ترمیم کے ذریعے 2013 ء کے مقابلے میں 2014 ء کے سال تیزاب پھینکنے کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔Human Right Commission Pakistan کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2013 ء میں اس بات کا اقرا ر کیا گیا ہے کہ اس سال جلائے جانے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد صرف 46 تھی جبکہ یہی تعداد سال 2014 ء میں کم ہو کر صرف 12 رہ گئی ہے جو کہ ایک نہایت خوش آئند امر ہے۔
سفارشات:۔
تیزاب پھینک کر جلانے کے لئے جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں وہی سزائیں اگر باقی تمام طریقوں سے جلانے پر بھی عائد ہوجائیں تو خاطر خواہ کمی کی امید کی جا سکتی ہے۔
(b) زنا و زنا بالجبر:۔
دفعہ نمبر 376 تعزیرات پاکستان کے تحت زنا کے مرتکب مجرم کے لئے سزائے موت یا سزائے قید جس کی کم از کم حد 10 سالکم حد 10 سال
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
اور زیادہ سے زیادہ حد 25 سال مقرر ہے جبکہ اجتماعی زیادتی کی صورت میں ہر شریک مجرم کے لئے سزائے موت یا عمر قید سے کم کوئی سزا نہیں ہے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 34, 25, 24 اور 35 کے تحت حکومت عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ضامن ہے *
اور خواتین کے حقوق کی محافظ بھی ہے۔
گذشتہ برسوں میں پیش آنے والے زنا اور زنابالجبر کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے توظاہر ہوتا ہے کہ ایسے واقعات میں بے حد اضافہ ہوا ہے جس کی ایک سب سے بڑی وجہ الیکٹرانک میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں میں پھیلنے والی بے حیائی و فحاشی اور اس امر پر حکومتی اداروں کی جانب سے مکمل خاموشی ہے جس نے نوجوانوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ شادی کی شرح میں کمی ہے کیونکہ ہمارے غیر ضروری اور غیر شرعی رسم و رواج کی وجہ سے شادی کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی اخلاقی گراوٹ اور دین سے دوری نے بھی اس گھناؤنے فعل کو پروان چڑھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں زنا کے مرتکبین کے لئے سخت ترین سزائیں تجویز کی ہیں اور ان کے لئے آخرت میں سخت وعید بھی سنائی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ شاید لوگ اللہ اور رسول کے احکامات کو بالکل بھول گئے ہیں اور آخرت کا خوف لوگوں کے دل سے بالکل ختم ہو گیا ہے۔Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں زنا کے بعد قتل کے واقعات کے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں ان کے مطابق سال 2013 ء میں یہ تعداد 10 افراد تک ریکارڈ کی گئی جو کہ سال 2014 ء میں بڑھ کر 58 افراد تک پہنچ گئی ہے اسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اجتماعی زنا کے بعد قتل کئے جانے والے افراد کی تعداد سال 2013 ء میں 8 افراد تک ریکارڈ کی گئی جو کہ سال 2014 ء میں بڑھ کر 27 افراد تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ زنا کے بعد زندہ بچ جانے والے افراد کی تعداد سال 2013 ء میں 30 افراد ریکارڈ کی گئی اور سال 2014 ء میں یہ تعداد لگ بھگ 27 افراد ریکارڈ ہوئی جو کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ اسی طرح اجتماعی زنا کے بعد زندہ بچ جانے والے افراد کی تعداد سال 2013 ء میں 27 ریکارڈ ہوئی جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد ناقابل یقین اضافے کے ساتھ 45 تک پہنچ گئی۔ تاہم ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار فی الوقت موجود نہیں ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا سال 2005 ء میں تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے ذریعے کی جانے والی قوانین میں ترامیم کا معاشرے پر منفی اثر ہوا ہے یا مثبت۔ بظاہر تو منفی اثر زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ مذکورہ ترمیم سے قبل حرام کاری ایک قابل دست اندازی پولیس جرم تھا جس کو اب ناقابل دست اندازی پولیس بنا دیا گیا ہے اور جرم ثابت نہ ہونے کی صورت میں مدعی کے لئے قذف کی سزا بھی موجود ہے جس کے باعث اب لوگوں کے دل سے گرفتاری کا خوف رفع ہو گیا ہے۔ شہری علاقوں میں جا بجا جوس سنٹرز، مساج پارلرز اور فلیٹ دستیاب ہیں جہاں حرام کاری کرنے والے افراد کے لئے نہ صرف محفوظ جگہ فراہم کی جاتی ہے بلکہ نشہ آور اشیاء وغیرہ بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں کے مالکان قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پہلے سے مک مکا کر چکے ہوتے ہیں جس کے باعث کسی چھاپے وغیرہ کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی بھی لڑکی کے لئے جو ان باتوں سے واقف نہ ہو محض کسی جوس سنٹر سے جوس پینا بھی عمر بھر کے پچھتاوے کا سبب بن سکتا ہے۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
سفارشات:۔
معاشرے میں الیکٹرونک آلات یعنی موبائل اور کمپیوٹر کے ذریعے پھیلتی ہوئی بے راہ روی کے مناسب سدباب کے لئے قومی اسمبلی نے ایک نیا قانون Prevention Of Electronic Crimes Act 2015 حال ہی میں متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں لیکن اس قانون کو فعال ہونے میں شاید وقت لگے گا اور ہمیں اس کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے اور دوسری جانب کم عمری کی شادی کے قانون میں ترمیم کے ذریعے لڑکے کی عمر 16 برس اور لڑکی کی عمر 15 برس تک مقرر کر دینی چاہیے تاکہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی نوجون لڑکے اور لڑکیاں بے راہ روی کی دلدل میں پھنس جانے کے بجائے حلال اور اسلامی طریقے اپنائیں۔اس کے علاوہ جہیز جیسی رسم کا معاشرے سے مکمل خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ غربت اور تنگدستی کے باعث کوئی لڑکی شادی سے محروم نہ رہے۔
(c) جنسی طور پر ہراساں کیا جانا:۔
دفعہ نمبر 509 تعزیرات پاکستان کے تحت کسی بھی عورت کو ہراساں کرنے والے شخص کو تین سال تک سزائے قید یا *
5 لاکھ روپے تک سزائے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے واقعات کے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں ان کے مطابق سال 2013 ء میں یہ تعداد 5 افراد تک ریکارڈ کی گئی جو کہ سال 2014 ء میں بڑھ کر 11 افراد تک پہنچ گئی ہے۔
سفارشات:۔
Protection Against Harrasment of Women at Worplace Act 2010 کو فعال بنایا جائے اس کے تحت اداروں میں انکوائری کمیٹیوں کے قیام کو یقینی بنایا جائے اور متاثرہ فرد کی محتسب کے ادارے تک رسائی سے متعلق سہولت فراہم کی جائے جس سے عورتوں کے لئے مقدمے کی پیروی کرنا آسان ہو اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
(d) گھریلو تشدد:۔
* Domestic Violence (Prevention & Protection) Act, 2013
Human Rights Commission Pakistan کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2013 ء میں بتایا گیا ہے کہ سال بھر میں گھریلو تشدد کے 389 واقعات سامنے آئے جن شکار عورتیں ہوئی اور مجرموں میں سے اکثریت عورتوں کے خاوند تھے۔ اس کے علاوہ مذکورہ رپورٹ
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
میں عورتوں کے خودکشی کئے جانے کے واقعات کی تعداد 800 بتائی گئی ہے جن کی بڑی وجہ گھریلو تنگی بتائی گئی ہے۔
سفارشات:۔
گھریلو تشدد سے بچاؤ کے لئے صوبائی سطح پر قانون سازی کا آغاز سب سے پہلے صوبہ سندھ میں ہوا 2013 سے سندھ میں نافذ ہے ا ور حال ہی میں اسی حوالے سے ایک قانون صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں متعارف کرایا گیا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس بل میں تشدد کی تعریف میں جسمانی تشدد کو شامل نہیں کیا گیا جو کہ مکمل طور پر اس بل کے مقصد کو ختم کر دینا ہے نیز متاثرہ خاتون کو شیلٹر ہومز اور انکی کفالت کی بھی سفارش اس قانون کا حصہ ہے ، جس کے بعد ان پر اہلِ خانہ کی گرفت اور کمزور ہو جائے گی۔ ہماری تجویز ہے کہ گھریلو تشدد کی تعریف کو واضح اور مفصل ہونا چاہیئے اور گھریلو تشدد کی تعریف میں اس سرزنش کو شامل نہ کیا جائے جو کہ غیر اخلاقی اقدام کرنے پر اہلِ خانہ کی جانب کی جائے کیونکہ اس طرح گھریلو نظام اور خاندان کے ادارہ کے مکمل تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔ جبکہ باقی دو صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے لئے تاحال کوئی قانون موجود نہیں ہے لہٰذا جلد از جلد قانون مرتب کر کے نافذ کیا جائے تاکہ ایسے واقعات میں کمی واقع ہو۔
( جرائم بر خلاف اطفال )
چھوٹے بچوں کا قتل:۔ (a)
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں چھوٹے بچوں کے قتل کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2014 ء میں یہ تعداد 10 بچے تک ریکارڈ کی گئی۔
سفارشات:۔
چھوٹے بچوں کے قتل کے مقدمات کو دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں منتقل کیا جائے اور مجرموں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔
(b) نومولود بچوں کو پھینک دینا:۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں نومولود بچوں کو پیدائش کے بعد کسی جگہ پھینک دینے کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2013 ء میں یہ تعداد 29 افراد تک ریکارڈ کی گئی جبکہ سال 2014 ء میں یہ تعداد 21 ریکارڈ کی گئی۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
سفارشات:۔
ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے تحت ہر شہری کا DNA پروفائل حکومت کے پاس محفوظ ہو جائے تاکہ دیگر کئی کاموں میں اس سے معاونت کے علاوہ نومولود بچوں کے DNA کو حاصل کر کے اس کے والدین کا پتہ لگایا جا سکے اور انہیں کڑی سزا دی جا سکے۔
(c) بچوں پر تشدد:۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں کم سن بچوں پر تشددکے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2014 ء میں یہ تعداد 61 بچوں تک ریکارڈ کی گئی۔
سفارشات:۔
کم سن بچوں پر تشدد کے حوالے سے ملک میں کوئی بھی قانون نافذ الوقت نہیں ہے لہٰذا جلد از جلد مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے۔
ونی اور سوارہ :۔ (d)
دفعہ نمبر 310-A تعزیرات پاکستان کے تحت قتل وغیرہ جیسے مقدمات میں بدل صلح کے طور پر لڑکیوں کا لین دین (ونی اور سوارہ) جیسے جرائم کے لئے کم از کم 3 سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال سزائے قید مقرر ہے۔
Women and Family Commission, Karachi کی رپورٹ (VAWG) میں ونی اور سوارہ کے واقعات کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جس کے مطابق سال 2014 ء میں یہ تعداد 12 ریکارڈ کی گئی۔
سفارشات:۔
قانون پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
[/vc_column_text][vc_separator][vc_column_text]
( حوالہ جات )
* www.wikipedia.org
* www.hbv-awareness.com
* www.globalresearch.ca
* Daily Jang (29 May 2015)
* The Express Tribune (09 February 2015)
* State Of Human Rights In 2013 (HRCP)
* “The biological roots of heat-of-passion crimes and honor killings” (Matthew A. Goldstein)
* Annual Report On Violence Against Women And Girls In Pakistan (Women and Family Commission Karachi)
* Constitution of Islamic Republic of Pakistan, 1973
* Anti Terrorism Act, 1997
* Protection Of Pakistan Act, 2014
* Pakistan Penal Code, 1860
* Protection Against Sexual Harrasment of Women at Worplace Act 2010
* Women Protection Act, 2005[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]