Featured Image

Peaca Ordinance 2022 Article

پیکاترمیمی آرڈنینس اور غیر موثر ہتک عزت پاکستانی قوانین

( عدلیہ کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈنینس کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی روشنی میں )

کالم برائے راحیلہ خان ایڈووکیٹ ریسرچ آفیسر ویمن اسلامک لائرز فورم

21 مئی 2022

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو غیر آئینی کہہ کر کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے تحت کی گئیں کارروائیاں بھی ختم کردیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کا چار صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 19 شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ آزادی اظہار رائے اورمعلومات تک رسائی کے حقوق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہیں جنہیں دبانا غیرآئینی اورجمہوری اقدار کے منافی ہے۔

 اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔پیکا ترمیمی آرڈیننس کا نفاذ آئین کے آرٹیکل 9،14،19 اور 19اے کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے ہتک عزت کو قابل دست اندازی جرم بنانے والی پیکا کی سیکشن 20 بھی کالعدم قرار دیدی جبکہ اس سیکشن کے تحت درج مقدمات بھی خارج ہوں گے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ شکایت کنندگان داد رسی کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔۔عدالت نے فیصلے میں تحریر کیا کہ وفاقی حکومت سے توقع ہے وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے کر ہتک عزت آرڈیننس 2002 کو موثر بنانے کیلئے پارلیمنٹ کو مناسب قانون سازی کی تجویز دے گی۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جس کے نتیجے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔[1]

پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022کیا ہے ؟

الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ کو سال 2016 میں منظور کیا گیا تھا ۔[2] جس میں مذکورہ ترمیمی آرڈنینس2022  جاری کیا گیا تھا ۔[3] اس ترمیمی آرڈنینس کے تحت ایکٹ کی دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ 1 میں نئی کلاز شامل کی گئی تھی ۔ اس نئی دفعہ کے تحت  اب “فرد  کی تعریف میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن یا افراد کا ادارہ ، تنظیم، اتھارٹی یا حکومت کی طرف سے کسی قانون کے تحت قائم کردہ کوئی اور ادارہ شامل ہوگا۔” اس طرح ترمیمی دفعہ 3 کے تحت ایکٹ کی دفعہ 20 میں ترمیم کرتے ہوئےلفظ “شخص ” کے ساتھ منسلکہ لفظ ” قدرتی ” کو  خارج کرتے ہوئے اس دفعہ کے تحت جرم کے ارتکاب پر سزا ئے قید کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردیا گیا ساتھ ہی ایک نئی دفعہ (1) اے  کا اضافہ بھی کیا گیا ۔جو کہ کچھ یو ں تھی۔

“اطلاع دہندہ یا شکایت کنندہ متاثرہ شخص خود یا  اس کا مجاز نمائندہ، یاسرپرست ہوگا، اگر  ایسا شخص نابالغ  یا عوامی شخصیت یا عوامی عہدے کا حامل ہے”۔

اس ترمیم کا واضح مطلب یہ تھا کہ  جو کوئی بھی جان بوجھ کر اور عوامی طور پر کسی بھی معلوماتی سسٹم کے ذریعے ایسی معلومات کی نمائش یا ڈسپلے یا ترسیل کرتا ہے جسے وہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے، اور کسی بھی شخص کی ساکھ یا رازداری کو نقصان پہنچاتا  ہے ،  یا ڈراتا ہے ،اسے سزا دی جائے گی ۔ اس  دفعہ کے ساتھ موجود شرطیہ جملہ ” پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 کے تحت لائسنس یافتہ براڈکاسٹ میڈیا یا ڈسٹری بیوشن سروس کے ذریعے نشر ہونے والی کسی بھی چیز پر اس دفعہ کے تحت کچھ بھی لاگو نہیں ہوگا”کو بھی خارج کرد یا گیا تھا ۔جس کا مطلب یہ ہے میڈیا پر بیٹھ کر جو کوئی بھی کسی بھی ادارےیا عوامی  شخصیات یا عہدے دار کے بارے میں تنقیدی بات کرے گا وہ قابل تعزیر ہوگا۔اسی طرح اس ترمیمی آرڈنینس میں ایکٹ کی دفعہ 43 میں ترمیم کرتے ہوئےدرجہ بالا  دفعہ 20 کو قابل دست اندازی، ناقابل ضمانت، ناقابل راضی نامہ  جرم قرار دیا گیا تھا ۔

ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔

آرڈیننس کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔

آئین کے آرٹیکل 9 ،14،19  کیا ہیں ؟

آئین کےآرٹیکل 9 کے مطابق کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ آرٹیکل 14 الف کہتی ہے کہ  شرف انسانی اور قانون کے تابع ، گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی  اور اس آرٹیکل کی ذیلی شق ب کے مطابق کسی شخص کو شہادت/گواہی  حاصل کرنے کی غرض سے اذیت نہیں دی جائے گی ۔ آرٹیکل 19 ہر شہر ی کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق دینے اور ذیلی شق الف یہ کہتا ہے کہ قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں اور ضوابط کے تابع ہر شہر ی کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق ہے ۔

ہتک عزت آرڈنینس 2002  کیا ہے ؟

پاکستان میں ہتک عزت کا قانون  دیوانی اور فوجداری دونوں حیثیتوں سے موجود ہے۔دیوانی حیثیت میں ہتک عزت کے قانون کی کارروائی آرڈنینس 2002 کے تحت کی جاتی ہے۔ جس کے تحت  پولیس میں ایف آئی آر درج نہیں کروائی جاتی بلکہ ہتک عزت کا دعویدار معافی اور ہرجانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے تحت ہتک عزت کا دعویدار قانون میں موجود ایک مخصوص عرصے (دو سے چھ ماہ ) کے اندر اندر ہتک عزت کرنے والے کو ایک تحریری نوٹس بھیجے گا اور اس میں واضح طور پر ہتک عزت کا سبب بننے والے عمل کی نشاندہی کرے گا اور اس سے معافی و ہرجانہ ادا کرنے یا بصورت دیگر قانونی کارروائی کرنے کا کہے گا۔اس قانون کے تحت ہتک عزت کرنے والے کو بھیجے جانے والے نوٹس کے 30 دن کے اندر جواب دینا لازمی ہو گا۔ہتک عزت کے دعویدار کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس کا جواب موصول نہ ہونے پر ایک دیوانی مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے جس میں دعویدار کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کی ہتک عزت کب اور کیسے ہوئی اور اس کی وجہ سے اس کو اصل نقصان کیا پہنچا۔اگر  ہتک عزت ثابت  ہو جائے تو عدالت ( مدعی کی رضا مند ی  کے ساتھ ) مدعا علیہ کو حکم جاری کر سکتی ہے کہ مدعی سے  معافی مانگے، اور اس معافی کو  اسی انداز اسی جگہ شائع کرے جس طرح ہتک آمیز بیان شائع کیا گیا ہے  اورجنرل  نقصان کے طور پر کم از کم 50000روپے کے ہرجانے کے ساتھ تین ماہ کی قید   کا حکم  دے سکتی ہے  اور اس کے علاوہ، کوئی خاص نقصان جو کہ مدعی کی طرف سے عدالت کے اطمینان کے لیے ثابت ہو جائے ۔[4]

 اس کے علاوہ ہتک عزت آرڈنینس میں سال 2004 کی ترمیم کے مطابق 3 ماہ کی سزا کو خارج کردیا گیا اور یہ شرطیہ جملہ اس قانون کا حصہ بنا دیا گیا ہے بشرطیکہ ہتک عزت کا اصل باعث بنے  والے کی صورت میں کم از کم معاوضہ بطور عام (جنرل ) نقصان تین لاکھ روپے ہوں گے۔[5]  گویا اب دیوانی عدالت سے ہتک عزت کی صورت میں نہ صرف مدعاعلیہ سے معافی کا مطالبہ منظور کروایا جاسکتا  ہے بلکہ ساتھ ہی 3 لاکھ روپے تک کا معاوضہ بھی وصول کیا جاسکتاہے ۔ مزید اگر کوئی  نا قابل تلافی نقصان کو مدعی عدالت میں ثابت کردے تو اس کا معاوضہ الگ سے وصول کیا جاسکتا ہے ۔

کیا پاکستان میں ہتک عزت کی فوجداری کارروائی ممکن ہے ؟

پاکستان میں  کسی شخص کی ہتک عزت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 499 کے مطابق فوجداری کارروائی کی جاسکتی ہے اس دفعہ کے مطابق  ‘اگر کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص (زندہ یا مردہ)، ادارے یا کمپنی کی عزت، معاشرے میں مقام، جائیداد، ساکھ کے بارے میں کوئی ایسی بات یا عمل جو تحریری، اشارۃً ، زبانی یا کسی بھی دوسرے طریقے سے نقصان پہنچاتا ہے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے کرتا ہے ہتک عزت کے قانون کے زمرے میں آتا ہے۔‘

کسی ایک شخص کی جانب سے یہ عمل زبانی یا تحریری طور پر ہو سکتا ہے۔ جس کی سزا دو سال قید، جرمانہ یا دونوں ہے۔

دوسری طرف سنہ 2016 میں پریوینشن آف الیکٹرانک ایکٹ (پیکا) کے مطابق کسی شخص کی   ہتک عزت ایک فوجداری معاملہ ہے جس کی سزا تین سال ہے ۔مزید یہ کہ پاکستان میں الیکٹرانک  میڈیا کے مختلف زرائع  اور سوشل میڈیا  کے آنے کے بعد یہ مسائل جنم لے رہے ہیں  کہ آن لائن ہتک عزت کے معاملات کو کیسے قابل گرفت بنایا جائے اور اس لیے پیکا ایکٹ 2016 میں ہتک عزت کو ایک فوجداری قانون کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ پیکا ایکٹ کے تحت اس پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کارروائی کرتی ہے۔

گویا ملک میں  ہتک عزت کے دیوانی اور فوجداری قوانین  موجود ہیں  اور متاثرہ فرد  کی صوابدید ہے کہ وہ کس قانون کے تحت انصاف چاہتا ہے۔

پاکستانی ہتک عزت قوانین کے غیر موثر ہونے کی چنیدہ وجوہات :

ہتک عزت کے قوانین پاکستان میں  موثر طور پر نافذ نہیں ہیں ۔جس کی کئی وجوہات ہیں ۔ چند ایک وجوہات پر یہا ں بحث کی گئی ہے ۔

آزادی اظہار کی حدود کا تعین نہ ہونا:

آزادی اظہار کی حدود کا عوام کو علم نہیں ہے ۔ اکثر اوقات پاکستانی اظہار کی آزاد ی استعمال کرتے ہوئے دوسرے کی دل آزاری یا دوسرے کے نجی معاملات تک جاپہنچتے ہیں ۔ اسی  طرح عوامی شخصیات اور عوامی رہنماوں پر ساری دنیا تنقید کرتی ہے مگر  پاکستانیوں کی ایسی تنقید تذلیل میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔

ہتک عزت سیاست دانوں کا معمول ہے:

ہتک عزت کی یہ صورتحال صرف عام عوام تک محدود نہیں بلکہ عوامی لیڈرز تک یہی عمل دن رات فرما رہے ہیں ۔ سیاست دان ایک دوسرے پر مثبت تنقید کے بجا ئے ذاتیات پر اترآتے  ہیں ۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے ہیں ۔سیاست دانون  کوہتک عزت کو  سنجیدہ معاملہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ خود ہی ایک دوسرے پر الزامات لگائیں گے تو وہ کبھی اس پر سخت اور سنجیدہ قوانین نہیں بناسکیں گے  یا پہلے سے موجود قوانین کی خامیوں کو تلاش کرکے ترمیم نہیں کرسکیں گے  یا  اس کی عملداری کو مضبوط نہیں  بنا سکیں گے۔

عوام میں ہتک عزت سے متعلق شعور و آگاہی کا فقدان :

پاکستان میں ہتک عزت کے بہت زیادہ معاملات ہونے کے باوجود ہتک عزت کےقوانین کے غیر مؤثر ہونے کی  اہم وجہ عوام میں اس حوالے سے شعور اور آگاہی کی کمی بھی ہے اور عوام میں اپنے حقوق کی آگاہی نہیں ہے ۔

عدالتی کارروائی :

دوسری بڑی وجہ عدلیہ میں مقدمات کی بھر مارہونا ہے اور صرف مقدمات کی بھر مار ہی نہیں ہے بلکہ یہ مقدمات سال ہا سال چلتے ہیں جس سے سائلین میں مایوسی پھیلتی ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ عدالتوں کی طرف سے انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ۔[6] مقدمات کے فیصلوںمیں تاخیر کی بڑی وجہ ججزاور کورٹ اسٹاف کی کمی ، عدالتی ہڑتالیں ، گواہان کا پیش نہ ہونا، وکلا کی مقدمات چلانے میں عدم دلچپسی جیسے عوامل ہیں ۔ جس کی وجہ سے عام طور پر ہتک عزت کے مقدمات اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے  ۔اس کو موثر بنانے کے لیے ہمیں عدالتی نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک میں ہتک عزت کے مقدمات کی کارروائی بہت جلد نمٹائی جاتی ہے۔

ہتک عزت کے غیر سنجیدہ دعوے :

ہتک عزت قانون کے تحت اگر کسی کی ساکھ، ذات، یا عزت و تکریم پر حرف آیا ہے تو وہ اس کے ازالے کے لیے کوئی بھی ہرجانے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ قانون میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔پاکستان میں عدالتوں سے  بھاری ہرجانہ ادا کرنے کے فیصلوں کی بہت کم مثالیں ہیں ۔مگرملک میں ہتک عزت کے حوالے سے دیئے جانے والے نوٹس اور مقدمات  میں غیر منطقی اور غیر حقیقی ہرجانے کے دعوے دائرکیئے جاتے ہیں اور یہ اربوں کروڑوں روپے  کے ہرجانے کے دعوے ہتک عزت کے مقدمات کو  غیر سنجیدہ بناتے ہیں ۔حالانکہ قانون کی نظر میں ایک عام شہری اور معرف شخص کی عزت و تکریم برابر ہے۔[7]

دیوانی مقدمات کے بجاے فوجداری مقدمات کو ترجیح دینا:

عدالتوں میں  ہتک عزت کے معاملات کو دیوانی مقدمات کے طور پر  بے ثمر اور بے نتیجا سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایسے مقدمات میں معاملہ معافی تلافی پر ختم ہو جاتا ہے اور ہرجانے یا نقصان کا آزالہ کرنے کی بات پس پشت چلی جاتی ہے۔اس لئے ایسے مقدمات کو وکلا  ہتک عزت کے فوجداری مقدمات بنا دیتے ہیں کیونکہ دیوانی مقدمات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

فوجداری کارروائی ہتک عزت میں اضافہ کا باعث سمجھی جاتی ہے :

کسی  واقعہ کی رپورٹ تھانے جا کر درج کروانا عام عوام کے لئے جان جوکھم کا کام ہے ۔ کیونکہ بدقسمتی سے پا کستانی تھانے کلچر  نے عوام کو انصاف سے مایوس کر رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی معاشرے میں تھا نے جانا  بھی عزت و قار کے منافی سمجھا جاتا ہے ۔ اور اگر کسی طرح یہ چوٹی سر کر بھی لی جائے تو پولیس مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کرتی ہے کبھی بیان کے لئے تھانے بلاتی ہے ۔ کبھی مزید تفتیش کے لئے ، اس صورتحال میں پولیس کا کوئی فائدہ ہو یا نہیں مگر مدعی کا ضرور نقصان ہوجاتا ہے۔ایسا شخص جو تھانے کے چکر کاٹے اسے معاشرہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اس لئے عام طور پر لوگ تھا نے جاکر ہتک عزت کی کارروائی نہیں کرتے ۔

تفتیشی  اداروں کی سنجیدہ تفتیش: 

صرف عدلیہ میں ایسے مقدمات کے لئے نظام کے اصلاح کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ریاستی اداروں،  خا ص طور پر تفتیشی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے مقدمات کی مکمل اور مناسب تفتیش کریں ،عام طور پر فوجداری مقدمات کا سارا دارو مدار پولیس کے تفتیشی افسران پر ہوتا ہےاگر وہ ایمانداری سے مقدمات کی تفتیش کریں تو نہ تو ثبوت وشہادتیں ضائع ہوں نہ گواہ خاموش رہیں اور نہ ہی انصاف میں دیر ہو۔لیکن بدقسمتی سے پولیس کے بعض تفتیشی افسران یا تو نااہل ہوتے ہیں اور نااہلی کی بناپر شہادتیں ضائع کردیتے ہیں یا پھر رشوت خوری کرکے جان بوجھ کر شہادتیں ضائع کرتے ہیں ۔ اس سے وہ سائلین کا انصاف پر سے نہ صرف  بھروسہ ختم کرتے ہیں بلکہ عدالتوں میں مقدمات کی درست پیروی نہ کرکے وقت بھی ضائع کرتے ہیں ۔اس طرح ظالموں کا ساتھ دیتے ہیں جس سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوپاتی ، اس صورتحام میں ملک میں ہتک عزت کے مفصل  قوانین موجود  ہونے کے باوجود سائلیں کو انصاف نہیں ملتا۔ 


[1]نمائندہ جنگ اسلام آباد 9 اپریل 2022

[2]https://na.gov.pk/uploads/documents/1470910659_707.pdf

[3] https://biseonline.pk/wp-content/uploads/2022/02/PECA-Ordinance-2022-PDF.pdf

[4] https://www.pakistancode.gov.pk/english/UY2FqaJw1-apaUY2Fqa-apaUY2FwbZ8%3D-sg-jjjjjjjjjjjjj

[5] http://paklaws2014.blogspot.com/2014/10/act-ix-of-2004-defamation-amendment-act.html#:~:text=(ii)%20for%20the%20full%20stop,be%20three%20hundred%20thousand%20rupees.%22

[6] 2019 CLC 108

[7] https://www.bbc.com/urdu/pakistan-58968218

عماد خالق ، بی بی سی اردوڈاٹ کام اسلام آباد،19 اکتوبر 2021۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Updates

Post Image
TARBIYATI NASHIST

تمنا درد دل کی ہو، تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں ~

Post Image
ELECTION’S 2023-2024

WIL FORUM SUPPORTING CANDIDATE FOR VICE PRESIDENT KBA 2023-2024 ADV. SYED SHAHID ALI MRS SHAHID ALI ADVOCATE SINDH HIGH COURT IS WELLKNOWN FOR HIS LOYALTY, ..Read More

Post Image
Wil forum annual report 2022

Women Islamic Lawyers’ ForumJustice Through Integration of Qur’an.A tale of Endeavour in providing the justice to the deprived litigantsFrom July 2021 till June2022 ➢ WIL Forum ..Read More

Post Image
Discussion forum

Wil fourm is going to held discussion fourm on 3 sep 2022 at high court library

Post Image
upcoming event

welcome party in honour of newly elected ladies member of malir bar

Post Image
Peaca Ordinance 2022 Article

پیکاترمیمی آرڈنینس اور غیر موثر ہتک عزت پاکستانی قوانین ( عدلیہ کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈنینس کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی روشنی ..Read More

Post Image
Peaca Ordinance 2022 Article

پیکاترمیمی آرڈنینس اور غیر موثر ہتک عزت پاکستانی قوانین ( عدلیہ کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈنینس کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی روشنی ..Read More