وزیرِ اعظم کو امریکی دھمکی اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ
Published on June 03, 2022
بلاگ از نسیم بانو ایڈوکیٹ ریسرچ آفیسر ویمن اسلامک لائرز فورم ( ول فورم)
مورخہ 21 مئی 2022 کراچی
ایک ملک اپنی خود مختاری کا قانونی حق رکھتا ہے۔ اور اس خود مختاری کے لئے لازم و ملزوم ہے اس ملک کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی ہو۔
تاہم جس طرح دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دو عظیم جنگوں کے نتائج کو مد نظر رکھا جائے تو دنیا دو بلاک میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اگرچہ زمانہ قریب سے پہلے یہ تقسیم برملا نہیں تھی لیکن حالیہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے اس تقسیم کو مزید واضح کردیا ہے۔
اس وقت دنیا میں چونکہ غریب ممالک کی تعداد زیادہ ہے ۔ اور دنیا کے چند ممالک پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہیں ۔ ایسے میں غریب ملک کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے IMF اور ورلڈ بینک سے سہارا لینا پڑتا ہے۔ تو دوسری طرف FTAF کی تلوار غریب ملک کو مزید معاشی میدان میں پنپنے کا موقع نہیں دیتی ۔ لہذا ان حالات میں آزاد خارجہ پالیسی غریب ملک کے لئے ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ لیکن اس تمام تناظر میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان اپنے ماضی کے 70 سال سے وہیں کھڑا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا ۔ آزاد خارجہ پالیسی کے تحت 1947 کے بعد سے ہی پاکستان نے امریکہ کی طرف اپنا جھکاو رکھا جس سے آج تک جان نہ چھڑا سکا ۔ گزشتہ تحریک انصاف کی حکومت جسے اپریل 2022 کے مہینہ میں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تحریک انصاف کے بیانیہ کے مطابق اسکی وجہ یہ آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کے ہی نتائج ہیں ۔ کیونکہ اس دفعہ پہلی بار امریکہ کے احکامات و خواہشات کے برعکس گزشتہ حکومت نے روس کا انتخاب کیا۔ پاکستان چونکہ امریکہ پہ انحصار کرتا رہا ہے۔ لہذا اس تاریخی پس منظر کو اور بے پناہ معاشی مسائل سے دوچار ملک پاکستان کو امریکہ کی جانب سے سفارتی دبائو کا سامنا کرنا پڑا ۔ آج سے پہلے اس طرح کے اقدامات و سفارتی دبائو کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا تھا ۔ خاص طور پہ عوامی سطح سے اوجھل رکھا جاتا تھا اندر ہی اندر تمام منظر نامہ کو تبدیل کردیا جاتا تھا ۔ تاہم اس دفعہ سابقہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس سے پہلے واضح پیغام پاکستان کی جانب سے گیا کہ جیسے پاکستان روس اور چائنہ کے بلاک کا حصہ بننے جارہا ہو ۔ اس کے بعد یورپی یونین کی جانب سے غیر سفارتی چینل کے ذریعے پہلے پاکستان کو بذریعہ خط کہا گیا کہ روس کی مذمت کی جائے ۔ اس پر سابقہ وزیراعظم کی جانب سے یہ معاملہ متعدد بار عوام کے سامنے جلسوں میں بھی اٹھایا گیا۔ جس کی بدولت یورپی یونین کی جانب سے تسلیم کیا گیا کہ یہ امر درست نہیں تھا۔ اس کے بعد گزشتہ حکومت کا یہ اصرار ہے کہ انکی حکومت کو ختم کئے جانے کے پیچھے امریکہ کے عزائم ہیں ۔ جس کے لئے سابقہ وزیراعظم نے عوامی سطح پر بھی امریکہ کی جانب سے موصول ہونے والے خط (کیبل) کا ذکر کیا ہے کہ جس میں مبینہ دھمکی دی گئی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ تمام تر الزامات صحیح ہیں یا غلط اس بحث سے نکل کر اگر اس بات کو فوکس کیا جائے کہ آیا سابقہ وزیراعظم کا یہ عمل جو کہ کسی ملک سے سفارتی سطح پر ڈیمانڈ یا حکم کی صورت میں کیا گیا اسکو آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت عام کرنے کا عمل درست ہے کہ نہیں؟
اس مسئلے پر وزیرِ اعظم نے پبلک میں جس حد تک بات کی ہے اس سے “آفیشل سیکرٹس ایکٹ” کی خلاف ورزی نہیں ہوئی؛
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی معاملہ وزیرِ اعظم کے فیصلے پر چھوڑا تھا اور توقع ظاہر کی تھی کہ وہ ایسی کوئی بات نہیں کریں گے جس سے آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی ہوتی ہو؛
– ویسے بھی آفیشل سیکرٹس ایکٹ ان قوانین میں ہے جن کا بوجھ انگریزوں کی غلامی کے دور سے ہم پر لاد دیا گیا ہے اور آزادی کے بعد بالخصوص دستورِ پاکستان میں مذکور بنیادی حقوق کی روشنی میں ہی ایسے قوانین کی تعبیر کرنی چاہیے۔
آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی دفعہ 5 یہ ہے۔ جس کے تحت سابقہ وزیراعظم کے خلاف عدالت انصاف سے رجوع کیا گیا تھا۔
Section 5 of the official secret Act.
Wrongful communication, etc., of information – – (1) If any person has in his possession or control any secret official code or password or any sketch, plan, model, article, note, document, or information that relates to or is used in a prohibited place or relates to anything in such a place, or which has been entrusted in confidence to him by any person holding office under 2 {Government} or as a person who holds or has held a contract made on behalf of 1{Government} or as a person who is or has
Been employed under a person who holds or has held such an office or
Contract.
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5۔
معلومات کی غلط مواصلت وغیرہ – – اگر کوئی شخص کسی خفیہ سرکاری کوڈ یا پاس ورڈ کو جو اس کے قبضے میں رکھنا یا کنٹرول کرنا کوئی خاکہ، منصوبہ، ماڈل، مضمون، نوٹ، دستاویز یا معلومات جو کسی ممنوعہ جگہ سے متعلق یا استعمال کیا جاتا ہے یا اس طرح کی کسی بھی چیز سے متعلق ہے۔ جگہ، یا جو کسی بھی شخص کی طرف سے اسے اعتماد میں سونپا گیا ہو۔ {حکومت} کے تحت عہدہ پر فائز یا ایک ایسے شخص کے طور پر جو اس پر فائز تھا یا اس پر فائز ہے۔ ایک معاہدہ جو {حکومت} کی جانب سے یا ایک ایسے شخص کے طور پر کیا گیا ہے جس کے پاس تھا یا ہے۔ کسی ایسے شخص کے ماتحت کام کیا گیا ہے جو اس طرح کا عہدہ رکھتا ہے یا اس پر فائز ہے۔
اہم نکتہ تمام تناظر میں جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے ادارے اور سیاست دان اپنے اپنے domain میں اپنے حلف کی پاسداری کریں پہلے خود کسی دوسرے ادارے میں مداخلت نہ کریں تو کسی غیر ملک کی بھی اتنی ہمت نہ ہوگی کہ وہ ہمارے ملک میں مداخلت کرسکے ۔
فوج اور عدلیہ دونوں کے سیاسی کردار ہیں جو کہ نہیں ہونا چاہیے ‘ کسی ادارے کو سیاسی جماعتیں بنانے اور توڑنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے‘ آئین اس ملک کا کور ہے‘ یہ ٹوٹ گیا تو یہ ملک ورق ورق بکھر جائے گا‘ اسے توڑنے کا اختیار بھی کسی ادارے‘ کسی شخص کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔
وہ خواہ فوج ہو یا عدلیہ ہو یا پھر منتخب وزیراعظم لیکن اس وقت فوج اور عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ کسی صورت قابل قبول نہیں‘ یہ ہمیں تباہ کر دے گا‘ یہ یاد رکھیں ہم نے اگر غیر ملکی مداخلت کو نہ روکا تو یہ ملک تقسیم ہو جائے ‘ ملک کی فکر کریں‘ یہ ملک واقعی ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
اگرچہ سابقہ حکومت نے قانون شکنی مکمل طور پہ نہیں کی ہے ۔ تاہم جو معلومات پبلک بھی ہوئی ہیں آج کے اس میڈیا کے دور میں وہ بھی ایک غیرت مند اور خوددار مملکت ہونے کے ناطے بہت ضروری تھا کہ عیاں ہوجائے کہ جس طرح ماضی میں امریکی حکومتوں نے پاکستان سے مطالبات رکھے اب مستقبل میں یہ باب بند ہوجائے ۔
آرمی کی جانب سے بھی امریکی مداخلت بذریعہ سفارتی خط کی تصدیق کی جاچکی ہے۔ اس سے قبل امریکی سفارتکار کو دفتر خارجہ بلاکر سخت احتجاج بھی کیا گیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنا کر صورتحال کو اور واضح کردیا جائے اور یہ صرف اس لئے نہیں کیا جائے کہ اس سے کسی سیاسی جماعت کے موقف کی تائید ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ یہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خودمختاری کی بھی بات ہے۔ تاکہ کوئی دوسرا ملک محض دولت و طاقت کی بنیاد پر اپنا اثر رسوخ استعمال نہ کرسکے۔ اور ملک میں موجود افراد بھی آئندہ محتاط ہوجائیں اور غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر اپنے حلف سے روگردانی نہ کریں۔